خریداری کا تذکرہ ہو اور خواتین کا ذکر نہ ہو؟ یہ بھلا کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ خواتین اور خریداری تو لازم و ملزوم ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسی عورت ہو جسے بازار جانے اور خریداری کرنے کا شوق نہ ہو۔ ہاں! یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ کچھ خواتین کو یہ شوق کم ہوتا ہے اور کچھ کو زیادہ۔ بعض خواتین ہر لمحہ، ہر گھڑی اور ہر موڈ میں شاپنگ کے لئے تیار رہتی ہیں۔ کچھ موڈ کی مناسبت سے خریداری کے لئے نکلتی ہیں اور جیب کا بھی خیال رکھتی ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ خواتین تو شاپنگ کے مواقع تلاش کرتی ہیں۔ کوئی موقع ہاتھ آجائے تو وہ پورے جوش و خروش کے ساتھ اپنے پسندیدہ مشغلے میں جُت جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رمضان المبارک کا مہینہ آتے ہی خواتین کی خریداری کا وہ عالم ہوتا ہے، پورے سال جس کی مثال نہیں ملتی۔ بازاروں، دکانوں ،شاپنگ مالز میں رش دیکھ کر یوں محسوس ہو تا ہے کہ شاید خواتین نے سال بھر کی شاپنگ اسی مہینے میں کرلینی ہے۔ خاص طور پر رمضان المبارک کا آخری عشرہ شروع ہوتے ہی بازاروں کی رونق بے حد بڑھ جاتی ہے۔ اور خواتین بڑی تعداد میں خریداری کے لئے بازاروں اور شاپنگ مالز کا رُخ کرتی ہیں۔ حالانکہ اس عشرے میں زیادہ سے زیادہ وقت عبادت میںگزارنا چاہئے۔ مگر بیشتر خواتین یہ قیمتی وقت بازاروں میں گھوم پھر کر اور بازاروں کی رونقوں کا لطف اٹھانے میں گزار دیتی ہیں۔ ہماری کوشش یہ ہونی چاہئے کہ اپنی مصروفیات کو ممکنہ حد تک محدود کرتے ہوئے خود کو صرف اور صرف اﷲکی رضا اور خوشنودی حاصل کر نے کے لئے وقف کر دیں۔
درحقیقت ہمیں رمضان کی آمد سے دو ماہ قبل ہی یہ طے کر لینا چاہئے کہ عید کی مناسبت سے کیا کیا خریدنا ہوگا۔ یہ طے کرلینے کے بعد اپنے اور بچوں کے لئے اور دیگر اہل خانہ کیلئے خریداری کی فہرست بنائیں۔ ساتھ ساتھ گھر کے سودا سلف کی بھی الگ سے فہرست بنالی جائے۔ کوشش یہ ہونی چاہئے کہ رمضان کے آغاز سے قبل ساری خریداری کرلیں۔ اس کے کئی فائدے ہوتے ہیں۔ سب سے اہم تو یہ کہ خریداری سے فارغ ہونے کے بعد پورے ماہ صیام کے دوران آپ سکون و اطمینان سے عبادت کرسکتی ہیں۔
یہ ماہ مبارک سال میں ایک بار آتا ہے۔ کسے معلوم ہے کہ آئندہ اسے یہ مبارک مہینہ نصیب ہو یا نہ ہو۔ بدقسمتی سے تمام باتوں کا علم رکھنے کے باوجود ان پر عمل کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ جوں جوں رمضان کا آخری عشرہ قریب آتا ہے سڑکوں پر اور بازاروں میں عوام کا سیلاب سا امڈاچلا آتا ہے۔ دھکم پیل اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ بعض اوقات سانس لینا مشکل ہوجاتا ہے۔ بھیڑ میں بچے بھی پریشان ہوجاتے ہیں۔
خریداری کے لئے نکلنے والی خواتین کا آدھا وقت ٹریفک کے بے ہنگم رش میں پھنس کر اور آدھا وقت دکانداروں کی توجہ اپنی طرف مبذول کر وانے، اپنی باری کے انتظار میں کھڑے ہونے اور دکانداروں کے ساتھ بھاؤ تاؤ کرنے میں ضائع ہو جاتا ہے۔ شاپنگ مالزمیں رش کا وہ عالم ہو تا ہے کہ اپنی مطلوبہ چیز خریدتے وقت نہ لینے والے کو سمجھ آرہی ہو تی ہے کہ وہ کیا اور کتنے میں خرید رہا ہے نہ دینے والے کو، بالآخر جب تھک ہار کر شاپنگ کر کے گھر لوٹتے ہیں تو کئی چیزوں کو دیکھ کر سر پیٹ لینے کو دل چاہتا ہے کیونکہ اتنے رش اور عجلت کے عالم میں ہم اکثر سستی چیزوں کے بھی بھاری نرخ ادا کر آتے ہیں۔
اکثر کوئی چیز ٹوٹی ہوئی یا نقص کی حامل نکل آتی ہے کیونکہ رش میں دماغ جس قدر تھکن کا شکار ہو جاتا ہے اس میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی مفلوج ہوجاتی ہے۔ دوسرے یہ کہ دکاندار اس موقع پر آنکھیں سر پر رکھ لیتے ہیں۔ ان کے رویے اور مطلوبہ اشیاء کی قلت ہوجانے کے خوف سے خواتین عجلت میں خریداری کرلیتی ہیں۔ اس میں بعض اوقات نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے۔ یوں وقت اور پیسہ دونوں بر باد ہو جاتے ہیں۔ اس موقع کودکاندار ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور ایک چیز جو عام دنوں میں انتہائی مناسب دام میں خریدی کی جاسکتی ہے، آخری عشرے میں دام کئی گنا بڑھا دیئے جاتے ہیں۔ لاکھ بحث کے باوجود وہ قیمت کم کرنے پر تیار نہیں ہوتے۔ عالم مجبوری میں خواتین منہ مانگے داموں چیزیں خریدنے پر ہوتی ہیں۔ ان تمام مشکلات سے بچنے کیلئے ضروری ہے اور عقلمندی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ عید کی خریداری رمضان سے قبل یا ماہ صیام کے ابتدائی ایام میں کرلی جائے۔ اس طرح بازاروں میں مشقت نہیں اٹھانی پڑے گی، پیسے کی بچت ہوگی اور یکسوئی کے ساتھ عبادت بھی ہوسکے گی۔ بہرحال اب یہ کوشش کریں کہ کم سے کم وقت میں عید کی شاپنگ مکمل ہوجائے اور عبادات کیلئے زیادہ سے زیادہ وقت میسر آجائے۔ رمضان المبارک کا آخری عشرہ چل رہا ہے، جتنی نعمتیں سمیٹی جاسکتی ہیں سمیٹ لیجئے۔ عید کی خوشی میں خریداری بھی ضروری ہے مگر دن بھر کا بیشتر حصہ اس میں برباد نہ کریں۔
